نائیجل فاریج اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’قانونی امیگریشن پر بہت کم بحث ہوئی ہے‘‘ اور اس کے اثرات پر بھی کہ ’’کتنی بڑی تعداد میں لوگ اس ملک میں آ رہے ہیں‘‘۔
ریفارم یو کے کے لیڈر کا دعویٰ ہے کہ ’’بہت زیادہ لوگ جو آئے ہیں وہ کام نہیں کرتے، کبھی کام نہیں کیا اور کبھی کریں گے بھی نہیں‘‘، اور ان میں سے کئی ہنر مند کارکن بھی نہیں ہیں۔
وہ وعدہ کرتے ہیں کہ ’’فلاحی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں‘‘ کی جائیں گی، ورنہ یہ بل ’’ہمیں دیوالیہ کر دے گا‘‘۔
’’ریفارم حکومت میں، ویلفیئر صرف برطانوی شہریوں کے لیے ہوگا‘‘، وہ کہتے ہیں، اور مزید کہتے ہیں کہ اس سے برطانیہ ’’دنیا کے زیادہ تر عام ممالک کی طرح‘‘ ہو جائے گا۔
فاریج ’’بورس ویو‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں – بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ کے دوران امیگریشن – جسے وہ ’’جمہوری خواہشات کے سب سے بڑے دھوکے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، ’’یقینی طور پر کسی کی بھی یادداشت میں‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ 8 لاکھ لوگ برطانیہ میں غیر معینہ مدت indefinite leave to remainکے لیے رہائش حاصل کرنے کی قطار میں ہیں۔
’’یہ وہ نہیں جو بریکسٹ ووٹر چاہتے تھے، اور یقیناً یہ وہ نہیں جو کسی بھی کنزرویٹو ووٹر نے 2010 کے بعد سے چاہا ہو،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
وہ وعدہ کرتے ہیں کہ غیر معینہ مدت کے لیے رہائش کو ختم کر دیا جائے گا، اور شہریت کے لیے ’’بہت سخت راستہ‘‘ متعارف کرایا جائے گا، اور کہتے ہیں کہ ٹیکس دہندگان کو ’’بری طرح مارا جا رہا ہے تاکہ ان لوگوں کے اخراجات پورے کیے جائیں جو برطانوی شہری نہیں ہیں‘‘۔
’’ہم دنیا کے فوڈ بینک نہیں ہیں – یہ ہمارا کام نہیں کہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں کو سہارا دیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
کام کے ویزے دستیاب ہوں گے، فاریج مزید کہتے ہیں – لیکن کون اہل ہے اور برطانیہ آنے کے لیے کن شرائط پر اجازت ہوگی، ان قواعد کو محدود کیا جائے گا۔